(امام تنہا نماز پڑھ رہاتھا اور دوسرا مقتدی آگیاتوامام کے ساتھ شامل ہوسکتاہے؟)
(السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں "ایک شخص مغرب کی ایک رکعت نماز سری قرات کے ساتھ پڑھ چکا تھا اور دوسرا شخص آیا اور اس نے اقتدا کی نیت کرکے نماز شروع کردی لیکن منفرد کو شامل ہونے والے کی اقتدا میں شک ہوا اور امامت کی نیت نہ کرکے باقی رکعت بھی سری قرات کے ساتھ ادا کرکے نماز مکمل کرلی اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا منفرد کے ساتھ شامل ہونے سے جماعت ہوجاتی ہے؟ اگر ہوجاتی ہے تو مذکورہ صورت میں نماز کا کیا حکم ہوگا؟ جواب عنایت فرمائیے!
المستفتی: حافظ عبدالرحمن اشرفی امام و خطیب عالمگیری مسجد داہود
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
واضح رہے کہ اگر کوئی قابل امامت شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرا شخص بہ نیت اقتدا شامل ہوجاۓ تو دونوں کی نماز بصورت جماعت ہوجاۓگی،کیوں کہ صحت اقتدا میں امام کو امامت کی نیت کرنا ضروری نہیں مگر ہاں منفرد امامت کی نیت نہ کرےگا تو اسے جماعت کا ثواب حاصل نہ ہوگا لیکن نماز باجماعت ہوجاۓگی جبکہ اور کوئی وجہ مانع شرعی نہ ہو!
لھٰذا مذکورہ صورت میں بعد میں شامل ہونے والے کی نماز ہوگئ،اگرچہ منفرد نے امامت کا قصد نہ کرکے بقیہ رکعت بھی سری قرآت کے ساتھ ادا کرلی!
منفرد کے ساتھ دوسرا شخص آکر نماز میں شامل ہوجاۓ تو جماعت ہوجاتی ہے جیساکہ صحیح بخاری اور دیگر کتب احادیث میں حبرالامۃ حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں:"بت عند خالتي ميمونة فقام النبى صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل فقمت اصلي معه فقمت عن يساره فاخذ برأسي فاقامني عن يمينه" ترجمہ: میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات بسر کی۔حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا، میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپ نے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کر دیا(بخاري كتاب الأذان : باب اذا لم ينو الامام أن يؤم ثم جاء قوم فأمهم ٦٩٩، مسلم، كتاب صلاة المسافرين : ٧٦٣، نسائي ٨٠٧)
غنیۃالمستملی میں ہے:"ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإقامۃ حتی لو شرع علی نیۃ الانفراد فاقتدیٰ بہ یجوز"
ترجمہ: صحت اقتدا میں امام کو نیت کی حاجت نہیں یہاں تک کہ اگر انفرادی نیت پر (نماز) شروع کردے اور دوسرا شخص آکر اس کی اقتدا کرلے یہ جائز ہے (غنیة المستملی ص ٢٥١ط: عارف آفندی مطبعہ سندۃ)
الاشباہ والنظائر میں علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں::ولا یصح الاقتداء بإمام إلا بنیةٍ، وتصحُّ الإمامة بدون نیتہا․
ترجمہ: بغیر نیت کے امام کی اقتدا درست نہیں البتہ امامت بغیر نیت کے درست ہے(الأشباہ والنظائر، ١/ ٣٤)
الدر مع الرد میں ہے : ائتم بہ بعد الفاتحۃ یجہر بالسورۃ ان قصدالامامۃ الا فلا یلزمہ الجہر
ترجمہ: سورہ فاتحہ کے بعد کسی نے امام کی اقتدا کی (تو امام جہری نماز میں) بلندی آواز سے سورت پڑھےگا جبکہ امامت کا ارادہ کرے ورنہ جہراً (قرات کرنا) لازم نہیں،(الدر مع الرد ج٢ ص ٥٣٢)واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم باصواب
عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم
کتبہ : سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی
داہود شریف الہند
بتاریخ ١٧ربیع الاول شریف١٤٤٧ھ
بمطابق٩ستمبر٢٠٢٥ء
بروز سہ شنبہ (منگل)
ایک تبصرہ شائع کریں